کراچی: سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے جمعرات کو 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواست پر اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی)، سندھ ایڈووکیٹ جنرل (ایس اے جی) اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹسز جاری کردیئے۔
عدالت نے تمام فریقین سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا، درخواست گزار نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 239 کی تشریح پر سوال اٹھایا، نوٹ کیا کہ اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترامیم کا عدالت میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا کہ آئینی ترامیم سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔
عدالت نے عدلیہ کے کردار اور اس کی حدود پر روشنی ڈالتے ہوئے تسلیم کیا کہ سپریم کورٹ کے برعکس ہائی کورٹ کے پاس بعض آئینی ترامیم کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبائی چیف جسٹس کی تقرری روایتی طور پر سنیارٹی کی بنیاد پر مخصوص فارمولے پر عمل کرتی ہے، انہوں نے سوال کیا کہ عدالتی تقرریوں کے لیے کمیشن بنانے پر اعتراض کیوں کیا گیا جب کہ اس بات پر زور دیا کہ سینیارٹی سے قطع نظر تمام ججز فیصلے دینے میں برابر ہیں۔
Leave a Reply